01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 22
آں چست
از روز میری
قسط نمبر22
"حرا کی طرح مشائم بھی ایک دفعہ ایسے ہی سیڑھیوں سے گر گئی تھی' ایک بار گملے کا وار جس نے احد کے کندھے کو زخمی کیا' مشائم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا' احد مشائم سے دور ہو رہا ہے' بات بات پہ عجیب بیہیو کرنے لگتا ہے جیسے چھوٹی چھوٹی بات پہ غصہ کھاتا ہو۔ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟"۔ راضیہ بیگم خیالی دنیا میں سوچ کے گھوڑے دوڑاتیں اپنے روم کی طرف قدم رکھ رہی تھیں۔
"شاہ صاحب سے بات کرتی ہوں"۔ ہزار سوچوں کے بعد راضیہ بیگم کی الجھن جیسے سلجھنے کی راہ دیکھنے لگی تھی۔
"سمعان میری بات سنیں"۔ روم میں داخل ہوتے ہی راضیہ بیگم سمعان صاحب کے قریب آئیں جو بیڈ کے کراون سے ٹیک لگائے فون کے ساتھ لگے تھے۔
"کہیئے کیا بات ہے؟ آپ فکر مند لگ رہی ہیں سب خیریت ہے؟؟"۔ فون سے نگاہ اٹھا کر سمعان صاحب نے راضیہ بیگم کے چہرے کو دیکھا جو ہنوز سوچ کے بھنور میں پھنسی تھیں۔
"سمعان کل ہم شاہ صاحب کے پاس چلیں گے آپ کل آفس سے جلدی آ جائیے گا"۔ راضیہ بیگم نے قطعی کہا پھر سمعان صاحب کے مقابل تھوڑا فاصلے پہ بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔
"شاہ صاحب کے پاس؟"۔ سمعان صاحب دنگ رہ گئے۔ "لیکن کیوں راضیہ بیگم؟؟ اچانک سے آپکو شاہ صاحب کا خیال کیسے آ گیا؟ وہ بھی یوں بیٹھے بٹھائے"۔ سمعان صاحب نے مزید کہا۔
"آپ اس بات کو چھوڑیں سمعان بس آپ کل آفس سے جلدی آ جائیے گا اور ہاں کسی کو بتائیے گا مت"۔ راضیہ بیگم نے تنبیہ کی۔
"ٹھیک ہے کل چلے چلیں گے شاہ صاحب کے پاس اب آپ پریشان نا ہوں رات کافی ہو گئی ہے جا کے سو جائیں ورنہ طبیعت خراب ہو جائے گی آپکی"۔ سمعان صاحب نے انہیں تسلی دیتے کہا۔
"جی"۔ راضیہ بیگم بھی وہاں سے اٹھتے بیڈ کی دوسری جانب جا بیٹھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشائم ایم سوری کہ تمھیں بلاوجہ ڈسٹرب کر رہا ہوں"۔ مشائم فریش ہوکر واش روم سے نکلتے بیڈ کی طرف آئی ہی تھی کہ اسکا فون بجا جس پہ اسنے فون اٹھا کر دیکھا جہاں حمزہ کا نمبر درخشاں تھا۔کال ریسیو کرتے مشائم نے فون کان کے ساتھ لگایا۔
"اٹس اوکے کہو فون کیسے کرنا ہوا؟؟"۔ مشائم نے سنجیدگی سے کہا۔
"مشائم میں جانتا ہوں کہ احد تم سے ملنے نہیں آیا نا ہی کال کرکے تمھاری احوال پرسی کی اس بات کو لے کر تم بہت اپ سیٹ ہو اور کہیں نا کہیں اس سے ناراض اور خفا بھی"۔ حمزہ نے بات سنبھالنے کی کاوش میں بات کا آغاز کیا۔
"نہیں حمزہ میں نا ہی احد سے ناراض ہوں اور نا ہی خفا"۔ مشائم نے فی الفور کہا۔
"مشائم تم احد سے پیار کرتی ہو اور اگر آپکا چاہنے والا آپکی خبر گیری نا کرے خاص کر اس وقت جب آپکو اسکی ضرورت ہو' آپ کو برا تو لگتا ہے نا"۔
"بھول تھی میری مجھے لگتا تھا جس انسان سے میں محبت کرتی ہوں وہ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا ہے لیکن شاید ایسا نہیں تھا اور یہ بات راکسٹار احد سمعان نے مجھے بتا دی بلکہ جتا بھی دی کہ اسے مجھ سے محبت نہیں تھی' صرف لگاو تھا جو ختم ہوا"۔ مشائم کی آنکھوں میں اشک اتر آئے۔
"مشائم ایسی بات نہیں ہے احد کے دل میں صرف ایک ہی لڑکی ہے اور وہ تم ہو' نا ہی وہ کسی اور کا سوچ سکتا ہے نا ہی تصور کر سکتا ہے۔ تمھاری جگہ اور پیار وہ کبھی بھی کسی کو نہیں دے گا' میں اسکا دوست ہوں اسے اچھے سے سمجھتا ہوں باقی رہی بات تمھارے دل میں موجود اس تلخی تھی تو وہ میں امید کرتا ہوں کہ تم نکال باہر کرو گی کیونکہ جہاں پیار اور چاہت سے رہنے کا' گھر بسانے کا سوچا جائے وہاں تلخیوں، رنجشوں اور نفرتوں کو سپیس نہیں دی جاتی۔ گھر بننے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے"۔ حمزہ نے وضاحت کرتے مشائم کو قائل کرنے کی جدوجہد کی۔
"اگر ایسی بات ہے حمزہ تو تمھیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آیا؟؟"۔ مشائم تلملا اٹھی تھی۔
"مشائم مجھے اسکی کوئی خبر نہیں کچھ دن ویٹ کرو وہ خود ہی بتا دے گا"۔ حمزہ نے جوابا کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سمعان صاحب اور راضیہ بیگم کار سے نکلتے یکجا شاہ صاحب کے ہجرے میں داخل ہوئے تھے جہاں سکوت کا ڈیرہ تھا۔ اگر بتی کی بھینی بھینی سی خوشبو چار سو ہوا سے آمیزش اختیار کیئے ہوئے تھی۔
سمعان صاحب اور راضیہ بیگم فاصلہ طے کرتے شاہ صاحب کے مقابل جا بیٹھے تھی جو مسلسل ورد کرنے میں محو تھے' انکے قریب جاتے ہی شاہ صاحب نے آنکھیں کھول لیں تھیں۔
"اسلام و علیکم شاہ صاحب"۔ سمعان صاحب اور راضیہ بیگم نے یکجا کہا۔
"وعلیکم السلام سمعان کیسے ہو؟"۔ شاہ صاحب نے مزید کہا۔
"میں ٹھیک ہوں شاہ صاحب لیکن کچھ۔۔"۔
"پریشان ہوں"۔ شاہ صاحب نے متبسم انداز میں سمعان صاحب کی بات کاٹی جس پہ راضیہ بیگم حیران ہوئیں۔
"شاہ صاحب میں امید کرتی ہوں کہ آپ ہمیشہ کی طرح ہمیں ہماری پریشانی کا کوئی نا کوئی حل ضرور بتائیں گے"۔ راضیہ بیگم نے آس لگاتے کہا۔
"بیٹی مسئلہ بیان کرو"۔ شاہ صاحب نے راضیہ بیگم کو مخاطب کرتے کہا۔
راضیہ بیگم نے اول تا اخر تمام کہانی سنا دی تھی۔ کہانی سننے کے بعد شاہ صاحب نے آنکھیں بند کیں اور ورد کرکے سمعان صاحب اور راضیہ بیگم پہ پھونکنے لگے۔
"بیٹی آپ کے گھر چڑیل کا سایہ ہے وہ کوئی معمولی قوت نہیں جسکا مقابلہ کیا جا سکے' اس میں طاقت بہت زیادہ ہے میں صرف اسکو کچھ دن آپ سے دور رکھ سکتا ہوں۔ میرے بس میں نہیں کہ مستقل اسے آپکے گھر سے نجات دلا سکوں"۔ شاہ صاحب نے تفصیل دینا شروع کی جس پہ سمعان صاحب کے ساتھ ساتھ راضیہ بیگم کی آنکھیں حیرت سے کھلیں۔
"شاہ صاحب چڑیل کا سایہ پہلے تو نہیں تھا اس گھر پہ آپ یہ بات اچھے سے جانتے ہیں"۔ راضیہ بیگم سہم گئیں تھیں۔
"بیٹی وہ چڑیل احد پہ عاشق ہے اور اسی کی بدولت اس گھر میں آئی ہے"۔ شاہ صاحب نے جواب دیا۔
"احد پہ"۔ راضیہ بیگم بے یقینی میں سمعان صاحب کو دیکھنے لگیں۔
"ہاں بیٹی احد پہ' میں نے احد کو ایک تعویذ دیا تھا ساتھ ہی چند ہدایات بھی کیں تھیں شاید اس قوت نے اسے دھمکا کے اپنا پیروکار بنا لیا ہے"۔ شاہ صاحب نے اعتقاد سے کہا۔
"لیکن شاہ صاحب وہ قوت احد پہ عاشق کیسے اور کیوں ہوئی؟؟"۔ راضیہ بیگم ہنوز بے یقینی کی گرفت میں تھیں۔
"بیٹی مجھے اسکا علم نہیں نا ہی میں بتا سکتا ہوں بس جو جانتا تھا اس سے آپکو باخبر کر دیا"۔ شاہ صاحب نے معذرت کی۔ "میں نے آپکو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا ہے وہ قوت آپکو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے' آپ دونوں یہ تعویذ اپنے بازووں پہ باندھ لیں امید ہے یہ آپکو اس قوت کے شر سے محفوظ رکھے گا باقی حفاظت کرنے والی تو صرف خدا کی پاک ذات ہے"۔ بولتے ہی شاہ صاحب نے دو تعویذ انکی طرف بڑھائے جنہیں راضیہ بیگم نے تھام لیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"زہرہ بیٹا میں ایک بات سوچ رہی تھی"۔ زہرہ فروا کے ساتھ لان میں بیٹھی گپ شپ میں مشغول تھی جب عمارہ بیگم انکے قریب آ کر کہنے لگیں۔
"کونسی بات امی؟ کیا ہوا؟"۔ عمارہ بیگم کی آواز پہ زہرہ انکی طرف متوجہ ہوئی۔
"زہرہ مشائم احد کی وجہ سے بہت پریشان اور افسردہ رہنے لگی ہے یوں تو وہ بیمار پڑ جائے گی"۔ عمارہ بیگم نے خدشہ ظاہر کیا جس کے تاثرات عمارہ بیگم کے چہرے پہ نمایاں تھے۔
"امی بات تو آپکی بالکل ٹھیک ہے لیکن وہ ہمارے ساتھ آ کے بیٹھتی ہی نہیں۔ فروا اور میں نے بہت کوشش کر لی کہ اسکا دھیان بھٹکا دیں لیکن وہ ہے کہ سنتی ہی نہیں"۔ زہرہ نے اکتاہٹ سے کہا۔
"بیٹا مشائم میری بیٹی اور تمھاری بہن ہے ہمیں ہی تو اسکی دیکھ بھال کرنی ہے' کیئر کرنی ہے اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟"۔
"جی امی ایسی ہی بات ہے تو پھر ہم کیا کریں؟؟"۔ زہرہ نے ایک نظر فروا کو دیکھا۔
"بیٹا تم لوگ ایسا کرو کہ اسے گھومانے پھرانے لے جاو ایسا کرنے سے اسکا دل بھی بہل جائے گا اور دھیان بھی بھٹک جائے گا"۔ عمارہ بیگم نے تجویز دی۔
"ہاں زہرہ آپی یہ ٹھیک رہے گا"۔ فروا نے مداخلت کی۔
"جی ٹھیک ہے امی ہم دونوں اسے آج ہی باہر لے جائیں گے"۔ زہرہ نے حامی بھری۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"زہرہ آپی آپ اور فروا جا کر شاپنگ کر لیں میرا دل نہیں ہے ویسے بھی مجھے کچھ نہیں خریدنا"۔ مشائم' فروا اور زہرہ سے ساتھ مال کے باہر کار میں موجود تھی جو ڈرائیور چلا رہا تھا۔ مشائم نے کار میں بیٹھنے پر ہی اکتفا کرنا چاہا لیکن فروا کے ساتھ زہرہ نے اسکی یہ خواہش رد کر دی تھی۔
"بالکل نہیں ہم تمھارے ماتحت نہیں ہیں مشائم کہ تم جو کہو گی ہم دونوں وہی کریں گے"۔ زہرہ نے چڑ کر مشائم کی دیکھا جو ان دونوں کے مابین بیٹھی تھی۔
"مشی زہرہ آپی ٹھیک بول رہی ہیں اب اتنا دور ہمارے ساتھ آئی ہو تو مال میں بھی آ جاو"۔ فروا نے زہرہ کی تائید کی۔
فروا اور زہرہ کے اصرار پہ مشائم بھی انکے ہمراہ کار سے اتر کر مال کے اندرونی جانب بڑھنے لگی تھی۔
بذریعہ ایلیویٹر وہ تینوں فہرسٹ فلور پہ پہنچیں جہاں مختلف سٹورز تھے جن میں سے ایک انسٹرومنٹل سٹور بھی تھا۔
انسٹرومنٹل سٹور کے قریب سے گزرتے مشائم نے یکلخت نگاہ سٹور کی اندرونی جانب اٹھائی جہاں احد کو دیئے گئے گیٹار کی طرح کا ہوبہو گیٹار دیکھتے ہی گیٹار پہ اسکی نظر کے ساتھ فرش پہ اسکے قدم ٹھہر گئے تھے۔ اسکے برعکس زہرہ اور فروا اس بات سے بے خبر کہ مشائم بھی انکے ساتھ ہے' تھوڑا آگے نکل گئیں تھیں۔
"یہ گیٹار ۔۔۔۔ یہ گیٹار تو میں نے احد کو اسکا برتھ ڈے پلیزنٹ دیا تھا لیکن یہ یہاں؟"۔ مشائم کا ذہن ماضی کی سنہری یادوں کی ڈوریوں سے الجھا۔
پھر خیال جھٹکتے مشائم سٹور میں داخل ہوئی۔
"ہیلو میم ہاو کین آئی ہیلپ یو؟؟"۔ سیلز مین نے مشائم کو مودبانہ انداز میں مخاطب کیا۔
"مجھے یہ گیٹار چاہیئے"۔ مشائم نے فورا سے معاملے کے قہر تک جانے کی کاوش کی۔
"سوری میم یہ گیٹار آپ کو نہیں مل سکتا یہ گیٹار آرڈر پہ تیار کیا گیا ہے"۔ سیلز مین نے نفی کرتے آگاہ کیا۔
"کس نے آرڈر دیا ہے؟؟"۔ مشائم نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔
"میم یہ گیٹار راکسٹار احد سمعان کی فرمائش پہ تیار کیا گیا ہے"۔ سیلز مین کی بات پہ مشائم ششدر رہ گئی۔
"آپ یہ گیٹار مجھے دے دیں میں احد کو دے دوں گی"۔ مشائم نے پھر سے کہا۔
"لیکن میم آپکو؟؟"۔ سیلز مین مشائم کی بات پہ حیران ہوا۔
"میں احد کی منگیتر ہوں اس لیئے آپ مجھ پہ ٹرسٹ کر سکتے ہیں"۔ مشائم نے ہولے سے کہا۔
"جی میم آپ کاونٹر پہ رابطہ کریں"۔ سلیز مین نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد اپنے روم میں بیڈ پہ دائیاں بازو پیشانی پہ رکھے آرام فرما تھا جب کھڑکی کے پٹ زور دار آواز پیدا کیئے کھلے جیسے کسی کی دھماکے دار انٹری کا سندیس ہو۔
احد بغیر آنکھیں کھولے جوں کا توں پرسکون لیٹا تھا شاید اسکی زندگی کا سکون مستقل اس سے چھین لیا گیا تھا جو اسے مشائم سے بات کر کے' اسے جی بھر کر دیکھ لینے سے ملتا تھا لیکن اب اسے کسی چیز کی کوئی پرواہ نا رہی تھی۔
"میں یہاں غصے میں ہوں اور تم یہاں آرام سے سو رہے ہو"۔ گپت آواز نے طیش میں احد کے وجود کو ہوا میں معلق کر دیا تھا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے؟ کامن سنس نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ نیچے اتارو مجھے'میں نے کہا نیچے اتارو مجھے"۔ احد جھنجھلا اٹھا تھا۔
"نیچے اترنا ہے تمھیں ۔۔۔۔ یہ لو"۔
"آ"۔ غیبی قوت نے اگلے ہی لمحے احد کا وجود دیوار کے ساتھ مارا تھا جس سے احد اپنی پیٹھ پکڑ کے رہ گیا۔
"تمھارے ماں باپ کو ویسے ہی پتہ چل گیا میرے بارے میں اب چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے کچھ اور سوچنا ہوگا لیکن کیا؟؟"۔ غیبی قوت کا عتاب برقرار تھا جو اسکی بھاری آواز سے پہچانا جا سکتا تھا۔
اگلے ہی پل غیبی قوت نے احد کے وجود میں پناہ لی جس سے اسکے بدن کو ایک زور دار جھٹکا لگا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆